لندن،10جون(آئی این ایس انڈیا)انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملوں کے تناظر میں جرمنی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مہاجرین اور تارکین وطن کی رہائش گاہوں کو محفوظ بنانے کے لیے مزید اقدامات کرے۔نیوز ایجنسی اے ایف پی کی برلن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جرمن شاخ نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ جرمن حکام کے پاس مہاجرین کی پناہ گاہوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔جرمنی میں مشرق وسطٰی کے شورش زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مہاجرین کی آمد کے بعد سے دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی جانب سے نفرت اور اجانب دشمنی پر مبنی جرائم اور مہاجرین کو فراہم کردہ رہائش گاہوں پر حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ملک کی وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2014ء کے دوران ایسے 175 حملے ریکارڈ کیے گئے تھے جو 2015ء میں کئی گنا اضافے کے بعد 923 ہو گئے تھے۔ رواں برس کے دوران بھی تارکین وطن اور مہاجرین کے خلاف حملوں میں بتدریج اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ جرمن پولیس کے پاس عمومی طور پر پر پناہ گاہوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے کوئی جامع منصوبہ نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کی اس بین الاقوامی تنظیم نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ پناہ گاہوں کی حفاظت کے لیے نجی کمپنیوں کی خدمات لی جاتی ہیں لیکن جرمن پولیس ان نجی محافظوں کی چھان بین نہیں کرتی۔ایمنسٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ایسے واقعات بارہا دیکھے گئے ہیں کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کو پناہ گاہوں کی حفاظت پر مامور کر دیا جاتا ہے اور ایسے محافظ تارکین وطن کی پناہ گاہوں کی حفاظت کے بجائے اس کے لیے خطرہ بن جاتے ہیں۔گزشتہ دنوں ڈوسلڈورف کا ایک مہاجر کیمپ آگ لگنے کے باعث مکمل طور پر جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ دفتر استغاثہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مبینہ طور مہاجرین ہی نے کیمپ میں آگ لگائی تھی اور اس کی وجہ ممکنہ طور پر کیمپ میں رہنے والے مہاجرین کے مابین رمضان کے مہینے میں کھانا کھانے کے اوقات میں تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والا تنازعہ بنا۔ریڈ کراس کے زیر انتظام چلائے جانے والے اس کیمپ میں شام، عراق، افغانستان اور شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے 228 مرد تارکین وطن رہائش پذیر تھے۔ آگ کی وجہ سے 28 تارکین وطن زخمی بھی ہوئے۔دفتر استغاثہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بتایا، رمضان کے مہینے میں مہاجرین کا ایک گروپ کھانے کے اوقات کار میں تبدیلی چاہتا تھا جب کہ دوسرا گروپ چاہتا تھا کہ عام دنوں کی طرح تینوں وقت کھانا فراہم کیا جائے۔ آگ اسی تنازعے کی وجہ سے لگائی گئی۔پولیس نے آٹھ مہاجرین کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر رکھی ہے جن میں مراکش سے تعلق رکھنے والے وہ دو مہاجرین بھی شامل ہیں جنہوں نے مبینہ طور پر بستروں پر آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔